Description
کتاب کے بارے میں
انسان جب اس دنیا میں “شعور” کی آنکھ کھولتا ہے تو اپنے گردو پیش میں غور و فکر کرتا ہے۔اپنی ذات میں غور کرتا ہے،اپنے وجود میں غور کرتا ہے اور پھر اس کائنات میں غور و فکر کرتا ہے۔انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ وہ “بے مقصد” نہیں پیدا کیا گیا بلکہ کوئی اسکیم یا منصوبہ تو گا جس پر اس کو پیدا کیا گیا۔اتنی عظیم الشان مخلوق کیا بے مقصد پیدا کی گئی؟کیا اس کا وجود محض اسی دنیا میں منحصر ہے اور مرنے پر سب ختم!!! یہی سوالات اس کو خالق ِ کائنات کا پتہ دیتے ہیں۔اس طرح وہ “اللہ تعالی” یا “خدا” کے وجود کو اپنی فطرت میں پا کر پروان چڑھتا ہے۔اس کے بعد جہاں پر بھی وہ ٹھوکر کھاتا ہے “وحی الٰہی” اس کی راہنمائی کرتی ہے۔
اتنی صاف اور سیدھی بات کے باوجود آج یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ بہت بڑی تعداد میں سکول،کالجز اور یونیورسٹز کے طلباء و طالبات بڑی تعداد میں”دہریت” کا شکار ہو رہے ہیں اور اسی طرح بڑی تعداد میں لوگ دین اسلام سے دور ہو رہے ہیں۔جب یہ بات میرے مشائدے میں آئی تو میں نے غور و فکر کیا کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے تو مندرجہ ذیل وجوہات پائی؛
قرآن مجید اور آحضورﷺ کی ذات گرامی پر لگائے گئے بہتان
دہشتگردی اور فرقہ واریت کو اسلام سے منسلک کیا جانا۔
مذہبی پیشواؤں اور علماء کے غیر اخلاقی اور منفی رویے
ظلم جبر غربت و افلاس کے خاتمے کے لیے مذہبی راہنماؤں کا منفی کردار۔
تو اس کتاب کے لکھنے کا واحد مقصد یہی تھا کہ عام پڑھے لکھے طبقے کو ان سوالات کے جواب نہایت شفیق اور مدلل انداز میں دیے جائیں۔تاہم ان موضوعات کو نہایت شگفتگی کے ساتھ باندھا گیا ہے۔
کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے باب میں وجود باری تعالیٰ اور انسانی فطرت پر بات کی گئی ہے،دوسرے باب میں قرآن مجید سے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں سے متعلق بات کی گئی ہے،تیسرے باب میں سرور عالم ﷺ کی سیرت اور ذات کو واضح کیا گیا ہے۔اسی باب میں ان علماء و مشائخ کے منفی “رویوں” کے مقابلے میں آقاﷺ کے رویےکا بھی ذکر کیا ہے تا کہ یہ بات واضح ہو جائے کہ آحضرتﷺ نے اعلیٰ اخلاق ہی کی تعلیم دی۔(چند)مذہبی پیشواؤں کے رویے اور اخلاق اگر برے ہو تو اس میں دین ،مذہب کا کچھ قصور نہیں قصور ان کا اپنا ہے۔کتاب کے چوتھے باب میں معشیت کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔
اس کتاب کو لکھتے ہوئے جو طبقہ مخاطب ہے وہ اسکول،کالجز اور یونیورسٹیز کا پڑھا لکھا نوجوان ہے۔اس کتاب میں گفتگو بھی اسی طبقہ کی زبان میں کی گئی ہے۔آسان زبان رکھی گئی ہے تا کہ آسانی سے بات سمجھ آ سکیں۔
دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبول کریں اور اس کو مقبولِ عام کریں۔آمین۔
مصنف کے بارے میں
عمیر ظفر ایک سافٹ ویئرانجینئر ہیں اور انٹڑنیشنل اسلامک یونیوڑسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔اسلام آباد کے ایک سوفٹوئیر ہاؤس میں جاب کرتےہیں۔ایف جی قائد اعظم پبلک سکول اسکیم 3 سے میٹرک کی تعلیم مکمل کی اور فضائیہ انٹڑ کالج جناح کیمپ سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ان کی یہ عادت ہے کہ وہ غور و فکر کرتے ہیںاور یہی غور و فکر وجہ بنی یہ کتاب لکھنے کی۔علم،مطالعہ،ڈسکشن ،ڈیبیٹ،شاعری انکا شوق ہیں۔سیاست،معشیت،تاریخ ،مذہب،شاعری ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔اپنے معاشرے کے مسائل پر اکثر غورو فکر کرتےہیں اور اس کے علاوہ دینی علوم سے بھی گہری وابستگی رکھتے ہیں۔قرآن مجید کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں۔تفاسیر کا ذوق رکھتے ہیں۔کتب احادیث (صحاحِ سِتہ) کا مطالعہ بھی ہے۔لکھنے کا بہت قدیم شوق ہے لیکن اپنی پڑھائی کے سلسلے میں میں وہ اس میدان میں قدم نہ رکھ سکے۔تاہم انہوںنے لکھنے کا باقاعدہ آغاز شاعری کے چھوٹے چھوٹے قطعات سے کیا۔پھر اپنی پرسنل ڈائڑی لکھنے کی عادت بنائی اور پھر کالج کے زمانے میں(فضاحیہ انٹڑ کالج جناح کیمپ)اپنا پہلا مضمون لکھا جو کالج کے آفیشل رسالے (شعور) میں شائع ہوا۔اسی رسالے میں ان کی پہلی شاعری بھی شائع ہوئی۔وہاں سے اس سفر کا آغاز ہوا اور اسی کی ایک کڑی آج آپ کے ہاتھ میں یہ کتاب”حقیقت منتظر” ہے۔وہ اسلام ،تاریخ اور سیاست پرمضامین لکھتے ہیں،شاعری میں نعت اور غزلیں لکھ چکے ہیں۔انداز بیاں سادہ ہے تا کہ لوگ سمجھ سکیں۔پہلا مضمون “قائداعظم” تھا اور پہلی غزل “تم ہو تو تم سے لڑنا یاد آئیں”تھی۔
Email:umairzafar982@gmail.com
There are no reviews yet.