Description
کتاب کے بارے میں
تین براعظموں پہ پھیلی ہوئی ان گنت کہانیوں میں سے کچھ میری، تیری زندگی کے کچھ لمحات جو کہانیوں کی شکل میں سامنے ہیں۔
مشکی: ایک مصری سے بنے لڑکے کی اوائل نو عمری کے حادثات ، جن کی بنیاد حقیقی واقعات ہیں۔ نو عمر لڑکوں کو مدرسوں اور سکولوں میں جس طرح کے تشدد آمیز رویوں میں سے گزرنا پڑتا ہے اُس کا ایک پرتو ہے۔ دوسری کہانی روشن گلی کا ولی۔ لاہور کے علاقے باغبانپورے کی ایک دستاویزی عکس بندی ہے۔ واقعات و حادثات سے گزرتا ہوا ایک خاندان ہے جو اپنی روایت پسندی اور معاشرتی تغیر سے گزرتے ہوئے زندگی کے حادثاتی واقعات سے جینے کی راہ ڈھونڈ لیتا ہے۔
پینو: معاشرتی حد بندیوں اور جبر سے گزرتی ہوائی طوائف کی کہانی ہے جو معاشرے کے بدنما رویوں سے بد دل تو ہے مگر نجات کا راستہ نہیں پا سکتی۔ چھوٹے معصوم بچوں کے بھولپن کی کہانی ہے جو معاشرتی حد بندیوں کو نہیں مانتے۔
غلام رسول: جو پنجاب کے کھلیانوں، میلے ٹھیلوں، اور ثقافتی فرق کے اندوہنات تغیُر کے باوجود ایک بے پناہ محبت میں دو دھڑکنے والے دِلوں کے جذبوں کی کہانی ہے۔
جاپان اور کوریا کے ترقی یافتہ مگر روایت پسند معاشروں میں پلتی ہوئی محبت کی حدت ہے جو جان لیوا ہے۔ اساڑھ ستی اور رتن جوت اُسی کینوس میں پھیلی ہوئی محبت کی صدا ہے جو رنگ، نسل اور حدود سے بالاتر ہے۔ ضدی اور پارک ھِل روڈ، انسانی رویوں کے زیروبم اور دلوں کی دھڑکن سے بننے والے محبت اور رقابت کے پیچ و خم میں جو زندگی کی ضد ہونے کے باوجود محبت ہے۔ جو زندگی کو زندگی بناتی ہے۔
مصنف کے بارے میں
خالق رزاق: پیدائشی “لاہور” گلی محلوں اور چوباروں میں آنکھ کھلی۔ یہی وہ دور تھا جب زمانے نے انگڑائی لی اور محمل سے ترقی پسندی کی طرف رجحان کو مہمیز ملی۔ والد کے اندوہناک قتل، سب سے چھوٹے لاڈلے بھائی کی موت کی لکیر کو چھو کر زندگی کی طرف واپسی، معاشرتی بے حسی، قانون و انصاف کی بے حُرمتی، اور جسمانی اور ذہنی اذیت کرب سے فرار کی بجائے ٹکڑانے کا حوصلہ شائد میرے راجپوتی خون کا اثر تھا۔
جاپانی سکالرشپ نے حوصلوں کو مہمیز کیا اور زندگی سے دُوبدو ہونے اور اپنے ہونے کا شدت سے احساس ہوا شاید اس غضب کے دن کے بعد واپس پلٹ کر دیکھنے کا وقت اور حوصلہ نہیں ہوا۔
مگر لاہور ہمیشہ خوابووں اور حوصلوں میں رہا۔ شائد کچھ کہانیاں اسی لاہوری قرض کا حصہ ہیں۔ اپنی تمام بے راہروی ، آوارہ گردی اور “تم کبھی نہیں سُدھر سکتے” کا تمغہ سینے پر سجائے، شائد ایک دن میں اپنے کنجِ عافیت میں لوٹ آؤں مگر شائد بہت دیر کے بعد لوٹ آنا کوئی خاص معانی نہیں رکھتا!! ۔
There are no reviews yet.