Description
کتاب کے بارے میں
ایک منٹ کی خاموشی کا موضوع درد ہے۔۔۔کشیمر کے مسلمانوں کا درد۔۔۔پاکستان کے ان مسلمانوں کا درد جو ان کے لیے کنٹرول لائن پہ دن رات ،دھوپ چھاوں ،سردی گرمی کی پرواہ کیے بنا کھڑے ہیں۔ یہ ان لوگوں کا درد بھی ہے جو نہ تو کشمیری ہیں نہ پاک فوج کا حصہ ۔۔۔یہ کنٹرول لائن کے قریبی رہائشی ہیں ۔۔جو نہ تو قوم کے ہیروز ہیں نہ مظلوم کشمیر ی۔۔۔یہ لوگ بھی اپنے پیاروں کی قر بانیاں دے رہے ہیں ۔۔۔یہ ایک ایسی لڑ کی کی داستان ہے جس نے اپنا خاندان کھو دیا اس خاندان کے ہر فرد کی موت کے ساتھ اسکے وجود کا کچھ حصہ جھڑ جاتا ہےوقت کے دکھوں نے اسکے وجود کو پارہ پارہ کر دیا تھاوہ ان سب کے باوجود زندگی کی خواہش لیے
ہوئےتھی منفرد سی خو اہش۔۔۔کشمیر کی آزادی کی خواہش۔۔۔اسکی محبت
بھی کشمیر کے لیےاور جاں بھی۔۔۔کشمیر کی آزادی پر اسطرح یقینِ کامل رکھتی ہے جیسے مسلمان اللہ کی واحدانیت پہ رکھتے ہیں۔۔۔ایسے میں عالمٴاسلام کی مقبوضہ کشمیر کے لاکڈاون پر طویل خاموشی ایک ایسا ناسور ہے جس کی جڑیں جتنی مضبوط ہوں گی اسکے نتاٴج اتنے ہی گھمبیر ہوتے چلے جاٴیں گے اور دیکھنے والے دیکھیں گےایک دن ایسا بھی آے گا جب پوری دنیا ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانے کا خمیازہ بھگتے گی۔بے حسی کا یہ
لبادہ جسے اوڑھ کے دنیا کشمیر کی صورتحال سے اپنی آنکھیں بند کرنا چاہتی ہے وقت انکو دکھاٴے گا کہ اس لبادے میں چھپے کانٹے ایک دن انکے بدن کو تار تار کر دیں گے۔
یہ کہانی شہراولیاء سے سکھوں چک کی طرف سفر کرتی ہے اور پھر وہاں سے مقبوظہ کشمیر کی طرف۔۔۔کشمیر ۔۔۔ایک حسین وادی ۔۔۔روئے زمین پہ جنت کا ایک ٹکڑا جسکا حسن درد کی بے بہا لکیروں تلے دب سا گیا
ہےلیکن اب ظلم و بربریت کی انتہا ء اپنی حدوں کو چھو نے لگی ہے۔ میری دوست معصومہ فہیم میرے اس ناول پہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں؛
کشمیر کو بھی آزادی کا حق ایسے ہی حاصل ہے جیسے پاکستا ن کو تھاالحمداللہ آج ہم آزاد فضاء میں سانس لے رہے لیکن ایک منٹ کے لیے خود کو مقبوضہ کشمیر میں لے جاین ۔۔۔سوچیں۔۔محسوس کر یں خود کو وہاں ۔۔۔یہ
سوچ ہی ہمارے رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے۔
تو اب صفحہ پلٹیے اور پڑھنا شروع کیجیے اس تحریر کو اور پھر سے زندہ کیجے اپنے جزبہ ایمانی و جزبہ آزادی کو ہمارے کشمیری بھائی ہم پہ اتنا تو حق رکھتے ہی ہیں کہ آج ہم ان کا بازو بن جاٴیں اگر یہ بھی نہیں کر
سکتے تو کم از کم انکی آواز ضرور بنیں۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص تم سےکسی برائی کو ہوتے دیکھے تو اپنے ہاتھ سے روک دے اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں تو زبان سے روکے اگر اسکی بھی طاقت نہ ہو تو اسکو دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
(مسلم)
مصنفہ کے بارے میں
میرا تعارف درحقیقت میرا نام ہی ہے یعنی اقراء جو کہ پہلی وحی کا پہلا لفظ ہے۔جسکا مطلب ہے پڑھ۔۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جو خواہش مجھ میں پروان چڑھی وہ لکھنے کی تھی کہ قلم تھام کر اپنے تمام خیالات کی ترجمانی کر سکوں۔ یہ خواہش بھی دن بدن مجھ میں اپنی جڑیں مضبوط کرتی گئی۔۔ ۔حتی کے میرے کالج کے دورانیے میں یہ خواہش میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے میرے سامنے آن کھڑ ی ہوئی جسے میں نے بڑی خوبصورتی سے نظر انداز کر دیا وقت کے سفر میں ایک موڑ ایسابھی آیا جب میری ملاقات نمرہ احمد(نامور مصنفہ) سے ہوئی انکو اپنے لکھنے کی خواہش کے بارے میں بتایا تو انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور ان کی ایک تھپکی نے
اتنی ہمت تو دے دی کہ قلم تھام سکوں مگر سوال یہ پیدا ہوتا تھا کے کہاں سے شروعات کروں؟؟
لکھنے کی لگن نے پہلا موضوع جو ہاتھ میں تھمایا وہ بلاشبہ حساس ہے لیکن یہ میری ایک ادنی سی کاوش ہےکہ اپنے قلم کے زریعہ ظلم کے خلاف آواز بلند کر سکوں ۔۔ ناول کا ایک کردار میں نے اپنے شہر ، شہِراولیاءسے
سے چنا ۔
شہر اولیاء سے تعلق مجھے خود کی تلاش پر ابھارتا ہے کہ ۔۔۔میں کیا ہوں ؟ میں کون ہو؟ ابھی خود بھی نہیں جانتی۔۔۔خود کی تلاش ایک طویل سفر ہے جسکی نہ جانے منزل کیا ہے لیکن اس سفر کی خوبصورتی یہ ہے کہ ہردن قدرت کا ایک نیا راز مجھ پہ آشکار ہوتا ہےمیں بی ایس آنرز )شعبہ خوردبینی حیاتیات وخلیاتی جینیات) کے آخری مراحل سے گزر رہی ہوں۔۔۔پڑھنے اور لکھنے کی یہ جستجو جاری ہے اور جاری رہے گی کیونکہ زندگی نام ہی مستقل جدوجہد کا ہے ۔۔ آخر میں قارٴین سے انکی قیمتی رائے کی امید رکھتی ہوں ۔۔۔آپ کے کلمات تعریفی ہوں یہ تنقیدی انکا ہر لحاظ سے خیر مقدم کروں گی بس اس بات کا خیال کریں کی آپ کے بول کسی کی ذات کی نفی نہ کر یں۔۔۔آپ کے الفاظ میں جس قدر مٹھاس ہوگی انکی تاثیر اتنی ہی زیادہ اور دیر پا ہوگی اور نتیجتا آپ کی زندگی میں اتنی ہی مٹھا س گھلتی جائے گے۔ شکریہ۔
اقراءاکرم~
There are no reviews yet.