Description
کتاب کے بارے میں
سکندراعظم دنیا کا حکمران جس نے تمام دُنیا فتح کی مگر ایک ایسا شہر جو وہ کبھی فتح نہ کر سکا وہ تھا نہنگ۔نہنگ سے گُزرتے ہوئے ایک زہریلا تیر فاتح سکندر کو ہمیشہ کی نیند سُلا گیا۔جی ہاں یہ کہانی ہے اُس نہنگ کی جس نے سکندراعظم کو ابدی نیند سُلا دیا۔اور جوکئی صدیوں سے زمین کے نیچے دفن ہے۔جو کئی بار آباد ہوا اورکئی بار ناگہانی آسمانی آفتوں کے ہاتھوں اُجڑا۔اگر بات کی جائے اُن کھنڈروں کی جو حالیہ نہنگ شہر سے کُچھ ہی دُوری پر مشرق کی جانب واقع ہیں اور کوئی بھی نہیں جانتا یہ کب معرض وجُود میں آئے۔
دریا جہلم کے کنارے واقع نہنگ شہر جو کے مہاراج نہنگ بھوج کی حُکمرانی میں شاندار زندگی جی رہا تھا کب کھنڈر میں تبدیل ہوا دُنیا اس بارے میں ابھی تک خاموش ہے۔تو آئیے اس خاموشی کو توڑتے ہیں اور آپکو کہانی سُناتے ہیں اُس نہنگ کی جہاں محمداصحاب کی آمد سے اسلام کی روشنی آئی۔جی ہاں یہ کہانی ہے مہاراج نہنگ بھوج اور مہارانی چندرمُکھی کی بہادر بیٹی راجکماری سخی اور مُسلمان بہادر نوجوان حیات المیر کی۔
مصنفہ کے بارے میں
میں رابیل رانی ضلع سرگودھا ( پنچاب) کے ایک چھوٹے سے قصبہ ”نہنگ“ سے تعلق رکھتی ہوں۔ میں نے بحیثیت ایک شاعرہ ادب کی دُنیامیں قدم رکھا۔میرا پہلا شاعری کا مجموعہ”وفا کا موسم بیت گیا“ہے۔جو 2018 میں مکتب شافی لاہور سے شائع ہوا۔جس پر مجھے کافی پذیرائی ملی۔اور مجھے پاکستان بھر کی ادبی تنظیموں سے تقریباً 11 کے قریب ایوارڈز سے نوزا گیا۔ میرا دوسرا شاعری کا مجموعہ”اُداس آنکھیں“ ہے۔
جو 2019 میں مکتبہ شافی لاہور سے شائع ہوا، جس پر بھی مجھے ادبی تنظیموں سے تقریباً سات کے قریب ایوارڈز مل چُکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔
میرا اصل نام جو کہ میرے فادر نے رکھا عصمت النسأ ہے جبکہ میرا قلمی نام رابیل رانی ہے جس کا مطلب ”شیرنی“ کے ہیں۔ ایک زمیندار فیملی سے تعلق رکھنے کی وجہ سے میرا گھرکا ماحول کافی سخت ہے۔
اپنے گھر کے ماحول کو دیکھتے ہو ئے مجھے ڈر تھا کہیں میری فیملی مجھے اس فیلڈ میں آگے نہیں بڑھنے دے گی۔اسی خوف کے پیش نظر میں نے فیملی سے چُھپ کراپنے شاعری مجموعے شائع کروائےاور بے حد پذیرائی ملنےکے بعد مجھے شوق ہوا میں اس فیلڈ میں مزید آگے بڑھوں۔ بچپن سے ہی شاعری سے کافی لگاؤ تھا مجھے۔اور جب میں چھٹی کلاس کی طالبہ تھی تب میں نے ایک نظم ”شیشہ کی گڑیا “ لکھی۔ پھر وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ لکھتی رہتی۔لیکن باقاعدہ لکھنے کاآغاز 2017 سے کیا اور اسی سال کے اختتام پر اپنا مجموعہ کلام شائع کروایا۔لیکن اس کے برعکس جب میں نے ناول لکھنے کا ارادہ کیا تو اپنی فیملی کواپنے شوق اور لکھنے کے حوالے سے آگاہ کیا ۔میرے ڈر کے برعکس میری فیملی نے مجھے سپورٹ کیا اور میری حوصلہ افزائی کی۔جہاں تک میری ایجوکیشن کی بات ہے۔
میں نے تمام ایجوکیشن سرگودھا شہر میں رہ کر مکمل کی۔میں نے ہسٹری میں ماسٹر پنجاب یونیورسٹی سے کیا جبکہ اردو میں ماسڑ یونیورسٹی آف سرگودھا سے کیا۔جبکہ ایجوکیشن میں ماسٹر یونیورسٹی آف ایجوکشن لاہور سے کیا۔میں نے زندگی کے اس سفر میں بہت اُتار چڑھاؤ دیکھا جس کا اثر میری شاعری میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔زندگی جس قدر خوبصورت ہے اُس سے کہیں بڑھ کر تلخ بھی ہے۔اور یہ تلخی یہ کرواہٹ جب حد سے بڑھ جائے تو ہم خود کو ایک حصار میں قید کر لیتے ہیں۔جہاں ہمیں اپنی ذات کے مطلق جاننے کا موقع ملتا ہے۔ہمیں پتہ چلتا ہے ہم کس لیے پیدا کیے گئے ہیں اور ہمارے اندر خدا نے کیا صلاحیت رکھی ہے۔اور جب انسان اپنے چُھپے ہوئے اوصاف پہچان لیتا ہے تو اُسے تراش کر نگینہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔اور یہی میں نے اپنا پہلا ناول ”نہنگ“ لکھ کر کیا۔امید کرتی ہوں شاعری کی طرح قارئین ناول نگاری میں بھی مجھے خوب پذیرائی بخشیں گے۔اور ساتھ ہی میں اپنے بھائی ڈاکٹر رانا محمد سلیم (سویڈن) کی بے حد مشکور ہوں جسے میرے لکھنے کے متعلق جب پتہ چلا توانھوں نے نہ صرف مالی طور پر مجھے سپورٹ کیا بلکہ میرا حوصلہ بھی بڑھایا کہ میں زندگی کی تلخیوں کو بُھلا کر ایک لکھاری کے طور پر اپنی زندگی میں آگے بڑھوں۔ ادب کی دُنیا میں اپنا ایک نام پیدا کروں اور اپنے کام کی بدولت ہمیشہ لوگوں کے دل و دماغ میں زندہ رہوں۔
کیونکہ ایک رائٹر اپنے ہنر کی بدولت ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ایک شاعر ایک مصنف کبھی بھی نہیں مرتا۔
رابیل رانی
There are no reviews yet.