Description
کتاب کے بارے میں
یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کا اختتام کچھ بھی سوچا جا سکتا ہے۔ اور اِس کو پڑھ کر بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔لیکن ضروری نہیں کہ ہر سوال کا جواب ہو۔آشوغ کا ماننا ہے کچھ ایسے رشتے ہوتے ہیں جن کی کوئی منزل نہیں ہوتی ۔ تو کیوں نہ اُسے کوئی نام دے کر چھوڑا جائے۔ تو کیوں نہ اِس درد کو خوبصورتی سے لفظوں کے جال میں بنا جاۓ۔
مصنفہ کے بارے میں
میرا نام غوثیہ عرفان ہے۔ لیکن میں لکھنے کے لیے اپنا تخلص نام استعمال کرتی ہوں۔ جو کہ آشوغ نفری ہے۔ میں کون ہوں؟ اِس کی میں خود تلاش میں ہوں۔ مقصد پوچھے اگر میری زندگی کا ۔ تو جواب یہ ہوں گا۔ ایک عام بھٹکتی مسافر ہوں۔ اپنی منزل کی تلاش میں ہوں۔ اپنے خالی بستے کو میں احساس سے بڑے لفظوں سے بڑھنا چاہتی ہوں۔ مقصدِ حیات : کیسی ایسے کی زندگی میں روشنی بننا ۔ جس کی اࣿمید کی کرن کھو گی ہو۔ ذات:ذات کی بیکاری ہوں۔ اور رب کے آگے ہاتھ پھیلاۓ اپنوں کی خوشی کی بھیگ مانگتی ہوں۔ مختصر تعارف یہ ہے کہ میں خود نہیں جانتی میں کون ہوں۔ ہاں ! جو مجھے جتنا جانتا ہے میں اࣿس کے لیے وہی ہوں۔نصیحت:نصیحت میری یہ ہے۔ زندگی میں اگر تمھارا کوئی ایسا کام جو تم نا کر سکو۔ جس کے آگے تمھاری پیسے کی طاقت بے بس ہو۔ تو کیسی ایسے انسان کی مدد کر دینا جس کا وہ ادھورا کام تم مکمل کر سکتے ہو۔ اِس سے تمھاری بے چین روح کو سکون ہو گا۔
There are no reviews yet.