Kulyat e Hanif – کلیات حنیف

 1,200 PKR

محمد حنیف شاہجہانپوری کی خوبصورت شاعری کا دیوان۔

Author Muhammad Hanif Shahjahanpuri
Published March 2021
Price Rs. 1500 PKR
ISBN 978-969-749-077-6
Language Urdu
Total Pages 286
Paper Quality 80gsm Imported White Paper
Binding Hardback with Dust Cover
Genre Poetry, Urdu

Description

کتاب کے بارے میں

عرضِ مؤلف

مرشدی و استاذی جناب سرور عالم راز سرورؔ صاحب کے  الفاظ میں کہوں تو اردو زبان کی یہ خوش قسمتی،  کہ ہر دور میں بلا شبہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں شاعر  اور ادیب دادِ سخن دیتے رہے
ہیں، کئی  انتہائی لائق اور قابل ہستیوں کے لیے شاید کسی درجہ میں بدقسمتی کے مترادف رہی ہے۔ ہزاروں لاکھوں کی اس بھیڑ میں صرف معدودے چند ہی  ہیں جن کو بامِ عروج دیکھنا نصیب ہوا۔ دیگر  کی عمروں کا بیشتر حصہ اپنی حیثیت کو منوانے کی جد و جہد کرتے گزرا۔ نتیجتاً بہت سے گوہرہائے نایاب، جو وسائل کی کم یابی کا شکارتھے، یا جن کی طبعِ لطیف پر روز افزوں زوال پذیر ادبی سیاست اور اس سے وابستہ حربوں کا استعمال گراں گزرتا تھا ۔۔۔ وہ کنارہ کشی اختیار کرگئے اور اس مقام و مرتبہ سے محروم رہے جو ان کی صلاحیت اور قابلیت کے شایانِ شان ہو۔ محمد حنیفؔ مرحوم بھی، جو کہ میرے والد کے بڑے بھائی تھے،  ایسا ہی ایک نام ہے۔ ان کی دو کتب  بنام ’’غمِ نیلگوں‘‘ اور ’’قیامت کو ملیں گے‘‘ طبع ہوئیں جن کی سنجیدہ ادبی حلقوں میں کچھ حد تک پذیرائی بھی ہوئی اور اخبارات و رسائل میں ان پر مثبت تبصرے شائع ہوئے۔ تاہم مجموعی طور پر ان کو ایک گوہرِ نادیدہ ہی کہا جاسکتا ہے  ۔۔۔دھیان رہے،  گوہرِ نادیدہ، گوہرِ ناتراشیدہ نہیں! خود انہیں کے الفاظ میں۔۔۔

چوٹ کھا کھا کر اجاگر نت نئے پہلو ہوئے

میں کہ اک پتھر ہوں لیکن ناتراشیدہ نہیں!

اور واقعی، حنیفؔ  کسی ہیرے کی  ہی طرح تھے جسے  وقت نے آزمائش و ابتلا کے اوزاروں سے ایک مفرد طرز پر تراشا تھا ۔۔۔ جو ان کے کلام سے عیاں ہے!۔محمد حنیفؔ  نے م۔ حنیفؔ کا قلمی نام  اختیار کیا۔ ان کی پیدائش  تقسیم سے قبل، ۱۹۳۲ء  کے آس پاس ہندستان کے شہر شاہجہاں پور میں ہوئی۔  تقسیمِ ہند کے بعد غالباً ۱۹۵۱ یا ۵۲ء میں پاکستان ہجرت کی اور کچھ عرصہ کراچی میں مقیم رہے۔ بعد ازاں  پاکستان آرمی میں ملازمت کے سبب سابق صوبۂ سرحد کے چھوٹے سے  شہر  نوشہرہ منتقل ہوگئے اور ایسے گئے کہ پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔   اگر کراچی میں ہی رہتے تو شاید ادبی حوالے سے بہتر مقام حاصل کرپاتے  ، مگر انہوں نے خاندنی ذمہ داریوں کو اپنے شوق پر ترجیح دی اور اپنے اہل و عیال کے محفوظ مستقبل کی خاطر ایک ایسے چھوٹے سے شہر میں  مستقل سکونت اختیار کی، جہاں کی مادری زبان بھی ان کے لیے اجنبی تھی ۔۔۔ نتیجتاً   ادبی مواقع بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔ حنیفؔ محض ایک کہنہ مشق  شاعر ہی نہیں ، ایک اعلیٰ پائے کے مصور بھی تھے۔  کتاب کے پس ورق  چھپی تصویر اس بات کا بین ثبوت ہے۔  روایتی  آرٹ کے علاوہ انہیں تجریدی  آرٹ سے بھی  شغف رہا، جس کے کچھ نمونے اس کتاب میں شامل ہیں۔

یہ کلیات ان کی دونوں کتب کا مجموعہ ہیں۔ حنیفؔ  صاحب کی پہلی کتاب بنام ’’غمِ نیلگوں‘‘ ان کے بیشتر ادبی سفر کا احاطہ کرتی ہے جو یوں تو کئی دہائیوں پر محیط رہا مگر کڑے انتخاب کی وجہ سے انہوں نے بہت تھوڑے سے کلام کو لائقِ اشاعت گردانا ۔خود بقول  صاحبِ  کتاب   اسے ۱۹۵۰ یا ۶۰ء کی دہائیوں میں طبع ہو جانا چاہیے تھا۔ گویا اس کو اس دور کی سنہری ادبی فضا کےتناظر میں ہی دیکھنا چاہیے۔ نئی نسل کے قارئین کے لیے اس کتاب کا مطالعہ یقیناً ایک خوشگوار اور چشم کشا تجربہ ثابت ہوگا کہ آج کل اس نہج کا آہنگ اور ایسے زبان و بیان شاذ  و نادر ہی پڑھنے سننے کو ملتے ہیں۔

م۔ حنیفؔ کی دوسری کتاب، ’’قیامت کو ملیں گے‘‘،  پہلی کتاب کے برعکس زیادہ طویل شعری سفر کی عکاس نہیں کیونکہ یہ شاعر کے سب سے بڑے ذاتی غم کی آئینہ دار ہے۔ سن ۲۰۰۴ء میں ان کے سب سے چھوٹے، اور  لائق بیٹے  (فیصلؔ حنیف) کا کینسر جیسے موذی مرض کے سبب جواں سالی میں داغ ِ مفارقت دے جانا ان کو بری طرح سے مجروح کر گیا تھا۔ کسی پیارے کی اچانک موت کا صدمہ تو انسان پھر بھی جھیل جاتا ہے، مگر جواں سال بیٹے کو،جس نے زندگی کی تیس بہاریں بھی نہ دیکھی ہوں،   ایک موذی مرض میں کئی سال تک تڑپتا ہوا دیکھنا ایک بوڑھے باپ کے لیے کس قدر صبر آزما اور تلخ تجربہ ہو سکتا ہے،  اس کابات  اندازہ اس کتاب سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔   شاید یہی وجہ  ہے کہ اس کتاب کے لیے مرحوم نے کوئی دیباچہ بھی نہیں لکھا ۔۔۔جبکہ غمِ نیلگوں کے بر عکس اس کا کچھ  مواد فی البدیہہ نثری اور انگریزی نظموں پر  بھی مشتمل ہے۔

حنیفؔ صاحب پر ان کے پسرِ جواں سال کی رحلت کا اثر اس قدر شدید ہوا کہ ان پر اپنی وفات تک ایک پیہم مایوسی کی سی کیفیت طاری رہی، جیسے بس دن گن رہے ہوں۔ اپنے کھوئے ہوئے لختِ جگر سے جہانِ لافانی میں ملاقات کی امید تھی یا پھر کچھ اور، یہ میں نہیں جانتا تاہم فیصل بھائی کے انتقال کے بعد یوں لگتا تھا کہ جیسے ہر گھڑی ان کو داعیِ اجل کا انتظار رہتا ہوں۔

  اللہ کے فضل سے اپنی تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو چکے تھے۔ ذاتی مکان بنا چکے تھے۔ تمام بچوں کی شادیاں ہوچکی تھیں، بس ایک فیصل کی خوشی دیکھنا  شاید قدرت کو منظور نہ تھا۔ خیر! مشیتِ الٰہی کے بھیدوں تک کس کو رسائی ہے! بہرحال، فیصل کی وفات کے بعد  ان کے شب وروز ا سی کشمکش میں گزرتے رہے، یہاں تک کہ ۴ اگست ۲۰۱۶ء کو م۔حنیفؔ خودبھی خالقِ حقیقی سے جاملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

شاید ربِّ کریم نے قیامت سے قبل ہی باپ اور بیٹے کی ملاقات کا اذن جاری کردیا ہو۔

مجھے یقین ہے کہ  آپ کتاب کے اس حصے کے مطالعے کے دوران مصنف کے غم کو محسوس کرسکیں  گے۔ اگر ایسا ہو تو ازراہِ کرم ایک بار ضرور مصنف اور ان کے جواں سال مرحوم بیٹے فیصل کے حق میں فاتحہ خوانی اور دعائے مغفرت فرمائیے گا۔محمد احسن سمیع راحلؔ۔

Additional information

Weight 0.5 kg
Dimensions 0.4 × 5.5 × 8.5 in

There are no reviews yet.

Be the first to review “Kulyat e Hanif – کلیات حنیف”

Your email address will not be published. Required fields are marked *