کاشف رفیق کا شمار عہدِ حاضر کے معروف اور سنجیدہ فکر شعراء میں ہوتا ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور بطور فیملی میڈیسن سپیشلسٹ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بطور سپورٹس اینیلسٹ بھی مختلف ٹی وی شوز میں شرکت کرتے ہیں۔اُن کا تعلق آزادکشمیر کے ایک معروف علمی و ادبی گھرانے سے ہے۔اب تک اُن کے تین شعری مجموعے ”اُداس رات کا چاند”، ”کبھی آباد تھا یہاں اک شہر” اور ” مرا ہر خواب سچا تھا” زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر خاص و عام میں مقبول ہو چکے ہیں۔کاشف رفیق کو آزاد کشمیر، پاکستان اور بیرونِ ملک اہم مشاعروں میں اپنا کلام سنانے کا اعزاز حاصل ہے۔معروف گلوکار اُن کی غزلیں گا چکے ہیں۔ نام ور شعراء اور معتبر نقادان اُن کے فن پر اظہارِ خیال کر چکے ہیں۔
کاشف رفیق نے باقاعدہ شعری مشق سولہ برس کی عمر میں شروع کی۔ اُنھیں شعر کہنے کا شوق اپنے نانا مرحوم عبدالحفیظ سالب اور والدِ محترم ڈاکٹر محمد رفیق کی شاعری پڑھ کر ہوا۔ ابتدا میں انگریزی شاعروں ولیم ورڈزورتھ، ایس ٹی کالریج اور پی بی شیلے سے متاثر ہو کر چند انگریزی نظمیں لکھیں۔ لیکن پھر اُردو میں لکھنا شروع کر دیا۔ ساغر صدیقی کی شاعری نے اُن کے شوقِ شاعری کو انگیخت لگائی۔ تاہم فکر و اسلوب کے اعتبار سے سب سے زیادہ علامہ محمد اقبال سے متاثر ہیں۔ علاوہ ازیں محمد ابراہیم ذوق، مرزا غالب، داغ دہلوی، فراق گورکھپوری، اسرارالحق مجاز، منیر نیازی اور سعداللہ شاہ اُن کے پسندیدہ ترین شعراء میں شامل ہیں۔ اُن کی پسندیدہ ترین تصانیف میں پیامِ مشرق، بالِ جبریل، بانگِ درا، ارمغانِ حجاز، دیوانِ میر، دیوانِ ذوق، دیوانِ غالب، کلیاتِ فراق،کلیاتِ ساغر، کلیاتِ منیر ، کتنی اُداس شام ہے اور رم شامل ہیں۔
کاشف رفیق اپنی شاعری کے قارئین کی محبتوں کے تہہِ دل سے شکرگزار ہیں اور ہمیشہ اُن کی آراء کے منتظر رہتے ہیں۔ نئے لکھنے والوں اور بالخصوص نوجوان شعراء کے لیے اُن کا یہ پیغام ہے کہ وہ وسیع مطالعے اور مسلسل ریاضت سے ہی اپنے فن میں نکھار پیدا کر سکتے ہیں۔ شعر و ادب میں اپنا مقام بنانے کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ شعر و ادب سے حصولِ شہرت کو اپنا مقصد نہ بنائیں بل کہ اعلیٰ معیاری ادب تخلیق کر کے اِس کی ترویج کو پیشِ نظر رکھیں۔